Menu

The Noble Quran beta

⚖️

AI Assistant Terms & Disclaimer

Important Information

Before using our AI Assistant, please read and understand the following:

  • AI-Generated Content: Responses are generated by artificial intelligence and may not always be accurate or complete.
  • Not a Substitute for Scholars: This AI is not a replacement for qualified Islamic scholars or religious authorities.
  • Verify Information: Always verify religious guidance with authentic sources and qualified scholars.
  • No Liability: We are not responsible for decisions made based on AI responses.
  • Educational Purpose: This tool is for educational and informational purposes only.
  • Data Processing: Your conversations may be processed by third-party AI services (Groq).

By clicking "I Agree", you acknowledge that you have read and understood these terms.

📧

Login to Chat

Enter your details to access the AI Assistant

🤖 Quran AI Assistant
🤖
Assalamu Alaikum! I'm your Quran AI assistant. Ask me anything about the Quran, Islamic teachings, or how to use this platform.
We may receive a commission if you click on a link and buy a product, service, policy or similar. This is at no extra cost to you. Detailed information about affiliate marketing links placed on this website can be found here.

About this Surah


Tafsir (Commentary)

زمانۂ نزول :

 اس سورۃ کا زمانہ  نزول سورہ مریم کے زمانے قریب ہی کا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ بہر حال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہو چکی تھی۔

ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستہ میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور ان کے بہنوئی سعید بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خبابؓ بن اَرت سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا۔ بہن نے بچانا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں ، ہم مسلمان ہو چکے ہیں ، تم سے جو کچھ ہو سکے کر لو۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے بھی وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کر لو، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمرؓ نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں یہی سورہ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا ’’ کیا خوب کلام ہے ‘‘۔ یہ سنتے ہیں حضرت خباب بن ارت ، جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے ، باہر آ گئے اور کہا کہ ’’بخدا، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا، کل ہی میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا، ابولحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے۔ پس اے عمر ، اللہ کی طرف چلو ، اللہ کی طرف چلو‘‘۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جا کر حضرت عمرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہے۔

موضوع و مبحث :

سورہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمدؐ ! یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکالو، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو، اور ہٹ دھرم لوگوں کے سلوں میں ایمان پیدا کر کے دکھاؤ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہو جائے۔ یہ مال زمین و آسمان کا کلام ہے۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں ، یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں ، خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔

اس تمہید کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے ، اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں۔ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ عرب میں کثیر التعداد یہودیوں کی موجود گی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تفوق کی وجہ سے ، نیز روم اور حبش کی عیسائی سلطنتوں کے اثر سے بھی، عربوں میں بالعموم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور سے اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں :۔ 

          1)۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کر تا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کر لی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے ، کچھ اسی طرح بصیغۂ  راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آ گئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کو ڈھول پیٹا۔ ایسے اعلانات پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے ؟

          2 )۔ جو بات آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) ٹھیک وہی بات منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھائی تھی۔

          3)۔ پھر جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بغیر کسی سرو سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا عَلم بردار بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ، ٹھیک اسی طرح موسیٰ علیہ السلام بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کر دیے گئے تھے کہ جا کر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جابر حکمراں سے ٹکرا جا۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مدد گار کے طور پر دے دیا۔ کوئی فوج فرّا اور ہاتھی گھوڑے اس کار عظیم کے لیے اس کو نہیں دیئے گئے۔

       4)۔ جو اعتراضات اور شبہات اور الزامات اور مکر و ظلم کے ہتھکنڈے اہل مکہ آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں ان سے بڑھ چڑھ کر وہی سب ہتھیار فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں استعمال کیے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ کس طرح وہ اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوا اور آخر کا کون غالب آ کر رہا؟ خدا کا بے سرو سامان نبی ؟ یا لاؤ لشکر والا فرعون ؟ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بے سر و سامانی اور کفار قریش کے سرو سامان پر نہ جائیں ، جس کام کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آخر کار غالب ہی ہو کر رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے ساحران مصر کا نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب حق ان پر منکشف ہو گیا تو وہ بے دھڑک اس پر ایمان لے آئے اور پھر فرعون کے انتقام کا خوف انہیں بال برابر بھی ایمان کی راہ سے نہ ہٹا سکا۔

         5 )۔ آخر میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک شہادت پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتدا کس مضحکہ انگیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رہنے کے کبھی روادار نہیں ہوئے ہیں۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

اس طرح قصۂ  موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہر حال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے۔

پھر آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے۔ اَحیاناً شیطان کے بہکائے میں آ جاتا تو خیر ایک وقتی کمزوری ہے جس سے انسان بمشکل ہی بچ سکتا ہے۔ مگر آدمی کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جب اس پر اس کی غلطی واضح کر دی جائے تو وہ اپنے باپ آدم کی طرح صاف صاف اس کا اعتراف کر لے ، توبہ کرے ، اور پھر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے۔ غلطی اور اس پر ہٹ اور نصیحت پر نصیحت کیے جانے پر بھی اس سے باز نہ آنا، اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے جس کا نقصان آدمی کو خود ہی بھگتنا پڑے گا، کسی دوسرے کا کچھ نہ بگڑے گا۔

آخر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ان منکرین  حق کے معاملے میں جلدی اور بے صبری نہ کرو۔ خدا کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر انکار پر فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے۔

لہٰذا گھبراؤ نہیں۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ۔ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو۔

اسی سلسلے میں نماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر ، تحمل ، قناعت ، رضا بقضا اور احتساب کی وہ صفا ت پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کے لیے مطلوب ہیں۔


Surah 'Abasa - تیوری چڑہائی
Ayah 1
ترش رو ہوا، اور بے رخی برتی
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
Ayah 2
اِس بات پر کہ وہ اندھا اُس کے پاس آ گیا
أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ
Ayah 3
تمہیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے
وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ
Ayah 4
یا نصیحت پر دھیان دے، اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟
أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ
Ayah 5
جو شخص بے پروائی برتتا ہے
أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ
Ayah 6
اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو
فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ
Ayah 7
حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ
Ayah 8
اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے
وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ
Ayah 9
اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے
وَهُوَ يَخْشَىٰ
Ayah 10
اس سے تم بے رخی برتتے ہو
فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ
Ayah 11
ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے
كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ
Ayah 12
جس کا جی چاہے اِسے قبول کرے
فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ
Ayah 13
یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں
فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ
Ayah 14
بلند مرتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں
مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ
Ayah 15
معزز اور نیک کاتبوں کے
بِأَيْدِي سَفَرَةٍ
Ayah 16
ہاتھوں میں رہتے ہیں
كِرَامٍ بَرَرَةٍ
Ayah 17
لعنت ہو انسان پر، کیسا سخت منکر حق ہے یہ
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ
Ayah 18
کس چیز سے اللہ نے اِسے پیدا کیا ہے؟
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ
Ayah 19
نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اِسے پیدا کیا، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی
مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ
Ayah 20
پھر اِس کے لیے زندگی کی راہ آسان کی
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ
Ayah 21
پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا
ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ
Ayah 22
پھر جب چاہے وہ اِسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے
ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
Ayah 23
ہرگز نہیں، اِس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اِسے حکم دیا تھا
كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ
Ayah 24
پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ
Ayah 25
ہم نے خوب پانی لنڈھایا
أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا
Ayah 26
پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا
ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا
Ayah 27
پھر اُس کے اندر اگائے غلے
فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا
Ayah 28
اور انگور اور ترکاریاں
وَعِنَبًا وَقَضْبًا
Ayah 29
اور زیتون اور کھجوریں
وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا
Ayah 30
اور گھنے باغ
وَحَدَائِقَ غُلْبًا
Ayah 31
اور طرح طرح کے پھل، اور چارے
وَفَاكِهَةً وَأَبًّا
Ayah 32
تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طور پر
مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ
Ayah 33
آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی
فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ
Ayah 34
اُس روز آدمی اپنے بھائی
يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ
Ayah 35
اور اپنی ماں اور اپنے باپ
وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ
Ayah 36
اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا
وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ
Ayah 37
ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا
لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ
Ayah 38
کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ
Ayah 39
ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے
ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ
Ayah 40
اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی
وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ
Ayah 41
اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی
تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ
Ayah 42
یہی کافر و فاجر لوگ ہوں گے
أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ

Quran

is the holy scripture of Islam. Muslims believe that it is the literal word of Allah (سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى‎), revealed to the Prophet Muhammad (صلى الله عليه وسلم) over a period of 23 years. The Quran is composed of 114 Suras (chapters) and contains 6,236 Ayat (verses). Muslim beliefs and practices are based on the Quran and the Sunnah (the teachings and example of Muhammad (صلى الله عليه وسلم)).

Meccan Surahs

The Meccan Surahs are the earliest revelations that were sent down to the Prophet Muhammad (صلى الله عليه وسلم). They were revealed in Mecca, hence their name. These revelations form the foundation of the Islamic faith and contain guidance for Muslims on how to live their lives. The Meccan Surahs are also notable for their poetic beauty and lyrical prose.

Medinan Surahs

The Medinan Surahs of the noble Quran are the latest 24 Surahs that, according to Islamic tradition, were revealed at Medina after Prophet Muhammad's (صلى الله عليه وسلم) hijra from Mecca. These Surahs were revealed by Allah (سبحانه و تعالى) when the Muslim community was larger and more developed, as opposed to their minority position in Mecca.

Receive regular updates

* indicates required