Menu

The Noble Quran beta

⚖️

AI Assistant Terms & Disclaimer

Important Information

Before using our AI Assistant, please read and understand the following:

  • AI-Generated Content: Responses are generated by artificial intelligence and may not always be accurate or complete.
  • Not a Substitute for Scholars: This AI is not a replacement for qualified Islamic scholars or religious authorities.
  • Verify Information: Always verify religious guidance with authentic sources and qualified scholars.
  • No Liability: We are not responsible for decisions made based on AI responses.
  • Educational Purpose: This tool is for educational and informational purposes only.
  • Data Processing: Your conversations may be processed by third-party AI services (Groq).

By clicking "I Agree", you acknowledge that you have read and understood these terms.

📧

Login to Chat

Enter your details to access the AI Assistant

🤖 Quran AI Assistant
🤖
Assalamu Alaikum! I'm your Quran AI assistant. Ask me anything about the Quran, Islamic teachings, or how to use this platform.
We may receive a commission if you click on a link and buy a product, service, policy or similar. This is at no extra cost to you. Detailed information about affiliate marketing links placed on this website can be found here.

About this Surah


Tafsir (Commentary)

نام :

  اس سورہ کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت

اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ

سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔

زمانۂ نزول :

 یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکہ زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو ہم نے چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے دیباچے میں گزر چکی ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے دور سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک ، اِستہزاء ، اعتراضات، الزامات ، تخویف، اِطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا، مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم ، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے ، یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر کیان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا۔ تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ابو طالب اور اُم المومنین حضرت خدیجہؓ ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ ۱۰ نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا۔

سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کر لی بھی، مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تا کہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں۔

موضوع اور مضمون:

  یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے : اصحاب کہف کون تھے ؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے ؟(روایات میں آتا ہے کہ دوسرا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں دیا گیا ہے۔ مگر سورہ کہف اور بنی اسرائیل کے زمانہ نزول میں کئی سال کا فرق ہے ، اور سورہ کہف میں دو کے بجائے تین قصے بیان کیے گئے ہیں ، اس لیے ہم سمجھتے کہ دوسرا سوال در اصل قصہ خضر سے متعلق تھا نہ کہ روح سے متعلق۔ خود قرآن میں بھی ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ’’ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۱‘‘)۔ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے انکا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا، بلکہ اُن کے اپنے پُوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان در پیش تھی:

          ۱)۔ اصحاب کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے ، اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ و اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پرتن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اُٹھایا اُسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔

          ۲)۔ اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائدار ہیں۔

          ۳)۔ اسی سلسلۂ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں در اصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بکی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ کیا ہو گیا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا ! حالانکہ اگر پردہ اُٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے ، آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔

          ۴ )۔ اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو ، حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوار تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی۔ اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔

اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو اّنہی پر پوری طرح اُلٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں ، یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔


Surah An-Naba - خبر
Ayah 1
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ
Ayah 2
کیا اُس بڑی خبر کے بارے میں
عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ
Ayah 3
جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟
الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ
Ayah 4
ہرگز نہیں، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائیگا
كَلَّا سَيَعْلَمُونَ
Ayah 5
ہاں، ہرگز نہیں، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا
ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ
Ayah 6
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا
Ayah 7
اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا
وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا
Ayah 8
اور تمہیں (مَردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا
وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا
Ayah 9
اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا
وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا
Ayah 10
اور رات کو پردہ پوش
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا
Ayah 11
اور دن کو معاش کا وقت بنایا
وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا
Ayah 12
اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کیے
وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا
Ayah 13
اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا
وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا
Ayah 14
اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی
وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا
Ayah 15
تاکہ اس کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی
لِّنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا
Ayah 16
اور گھنے باغ اگائیں؟
وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا
Ayah 17
بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے
إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا
Ayah 18
جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے
يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا
Ayah 19
اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا
وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا
Ayah 20
اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے
وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا
Ayah 21
درحقیقت جہنم ایک گھات ہے
إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا
Ayah 22
سرکشوں کا ٹھکانا
لِّلطَّاغِينَ مَآبًا
Ayah 23
جس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے
لَّابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا
Ayah 24
اُس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں گے
لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا
Ayah 25
کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں کا دھوون
إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا
Ayah 26
(اُن کے کرتوتوں) کا بھرپور بدلہ
جَزَاءً وِفَاقًا
Ayah 27
وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے
إِنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ حِسَابًا
Ayah 28
اور ہماری آیات کو انہوں نے بالکل جھٹلا دیا تھا
وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا
Ayah 29
اور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گن گن کر لکھ رکھی تھی
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا
Ayah 30
اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں ہرگز اضافہ نہ کریں گے
فَذُوقُوا فَلَن نَّزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا
Ayah 31
یقیناً متقیوں کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا
Ayah 32
باغ اور انگور
حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا
Ayah 33
اور نوخیر ہم سن لڑکیاں
وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا
Ayah 34
اور چھلکتے ہوئے جام
وَكَأْسًا دِهَاقًا
Ayah 35
وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے
لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا
Ayah 36
جزا اور کافی انعام تمہارے رب کی طرف سے
جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا
Ayah 37
اُس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں
رَّبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَـٰنِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا
Ayah 38
جس روز روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہونگے، کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا
Ayah 39
وہ دن برحق ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کر لے
ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا
Ayah 40
ہم نے تم لوگوں کو اُس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آ لگا ہے جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا
إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا

Quran

is the holy scripture of Islam. Muslims believe that it is the literal word of Allah (سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى‎), revealed to the Prophet Muhammad (صلى الله عليه وسلم) over a period of 23 years. The Quran is composed of 114 Suras (chapters) and contains 6,236 Ayat (verses). Muslim beliefs and practices are based on the Quran and the Sunnah (the teachings and example of Muhammad (صلى الله عليه وسلم)).

Meccan Surahs

The Meccan Surahs are the earliest revelations that were sent down to the Prophet Muhammad (صلى الله عليه وسلم). They were revealed in Mecca, hence their name. These revelations form the foundation of the Islamic faith and contain guidance for Muslims on how to live their lives. The Meccan Surahs are also notable for their poetic beauty and lyrical prose.

Medinan Surahs

The Medinan Surahs of the noble Quran are the latest 24 Surahs that, according to Islamic tradition, were revealed at Medina after Prophet Muhammad's (صلى الله عليه وسلم) hijra from Mecca. These Surahs were revealed by Allah (سبحانه و تعالى) when the Muslim community was larger and more developed, as opposed to their minority position in Mecca.

Receive regular updates

* indicates required