Menu

The Noble Quran beta

⚖️

AI Assistant Terms & Disclaimer

Important Information

Before using our AI Assistant, please read and understand the following:

  • AI-Generated Content: Responses are generated by artificial intelligence and may not always be accurate or complete.
  • Not a Substitute for Scholars: This AI is not a replacement for qualified Islamic scholars or religious authorities.
  • Verify Information: Always verify religious guidance with authentic sources and qualified scholars.
  • No Liability: We are not responsible for decisions made based on AI responses.
  • Educational Purpose: This tool is for educational and informational purposes only.
  • Data Processing: Your conversations may be processed by third-party AI services (Groq).

By clicking "I Agree", you acknowledge that you have read and understood these terms.

📧

Login to Chat

Enter your details to access the AI Assistant

🤖 Quran AI Assistant
🤖
Assalamu Alaikum! I'm your Quran AI assistant. Ask me anything about the Quran, Islamic teachings, or how to use this platform.
We may receive a commission if you click on a link and buy a product, service, policy or similar. This is at no extra cost to you. Detailed information about affiliate marketing links placed on this website can be found here.

About this Surah


Tafsir (Commentary)

نام:

پہلی آیت کے فقرہ  اِذَاجَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ سے ماخوذ ہے۔ یہ اس سورۃ کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں منافقین ہی کے طرز عمل پر تبصرہ کیا گیا ہے۔

زمانہ نزول:

جیسا کہ ہم آگے چل کر بتائیں گے ، یہ سورۃ غزوہ بنی المُصطَلِق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی واپسی پر یا تو دوران سفر میں نازل ہوئی ہے ، یا حضورؐ کے مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد فوراً ہی اس کا نزول ہوا ہے۔ اور ہم سورہ نور کے دیباچے میں یہ بات بتحقیق بیان کر چکے ہیں کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان 6  ھجری میں واقع ہوا تھا۔ اس طرح اس کی تاریخ نزول ٹھیک ٹھیک متعین ہو جاتی ہے۔

تاریخی پس منظر:

جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینے کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیش آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا  بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا جو بالآخر اس نوبت تک پہنچا۔

مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اَوس اور خز رج کے قبیلے آپس کی خانہ جنگیوں سے تھک کر ایک شخص کی قیادت و سیادت پر قریب قریب متفق ہو چکے تھے اور اس بات کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اس کو اپنا بادشاہ بنا کر باقاعدہ اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کر دیں ، حتیٰ کہ اس کے لیے تاج بنا بھی لیا گیا تھا۔ یہ قبیلہ خز رج کا رئیس عبداللہ بن اُبی بن سَلول تھا۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ قبیلہ خز رج میں اس کی بزرگی بالکل متفق علیہ تھی،اور اَوس و خز رج اس سے پہلے کبھی ایک شخص کی قیادت پر جمع نہیں ہوئے تھے (ابن ہشام، ج 2 ص 234)۔

اس صورت حال میں اسلام کا چرچا مدینے پہنچا اور ان دونوں قبیلوں کے با اثر آدمی مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ ہجرت سے پہلے بیعت عَقَبہ ثانیہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینہ طیبہ تشریف لانے کی دعوت دی جا رہی تھی اس وقت حضرت عباس بن عبادہ بن نَضْلَۂ انصاری اس دعوت کو صرف اس مصلحت سے مؤخر کرنا چاہتے تھے کہ عبداللہ بن ابی بھی بیعت اور دعوت میں شریک ہو جائے ، تاکہ مدینہ بالاتفاق اسلام کا مرکز بن سکے۔ لیکن جو وفد بیعت کے لیے حاضر ہوا تھا اس نے اس مصلحت کو کوئی اہمیت نہ دی اور اس کے تمام شرکاء جن میں دونوں قبیلوں کے 75 آدمی شامل تھے ، ہر خطرہ مول لے کر حضورؐ کو دعوت دینے کے لیے تیار ہو گئے (ابن ہشام، ج 2، ص 89)۔ اس واقعہ کی تفصیلات ہم سورہ انفال کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں۔

اس کے بعد جب حضورؐ مدینے پہنچے تو انصار کے ہر گھرانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ عبداللہ بن ابی بے بس ہو گیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسلمان ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ان بہت سے حامیوں کے ساتھ، جن میں دونوں قبیلوں کے شیوخ اور سردار شامل تھے ، داخل اسلام ہو گیا، حالانکہ دل ان سب کے جل رہے تھے ، اور خاص  طور پر ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور اپنی ریاست چھن جانے کا یہ غم طرح طرح کے رنگ دکھاتا رہا۔ ایک طرف حال یہ تھا کہ ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے بیٹھتے تو عبداللہ بن ابی اٹھ کر کہتا کہ ’’ حضرت، یہ اللہ کے رسول آپ کے درمیان موجود ہیں جن کی ذات سے اللہ نے آپ کو عزت اور شرف بخشا ہے ، لہٰذا آپ ان کی تائید کریں اور جو کچھ یہ فرماتے ہیں اسے غور سے سنیں اور ان کی اطاعت کریں ‘‘ (ابن ہشام، ج 3،ص 111)۔ دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ روز بروز اس کی منافقت کا پردہ چاک ہوتا چلا جا رہا تھا اور مخلص مسلمانوں پر یہ بات کھلتی چلی جاتی تھی کہ وہ اس کے ساتھی اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور گروہ اہل ایمان سے سخت بغض رکھتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضورؐ کسی راستے سے گزر رہے تھے کہ ابن ابی نے آپ کے ساتھ بد تمیزی کی۔ آپ نے حضرت سعد بن عبادہ سے اس کی شکایت فرائی تو انہوں نے عرض کیا، ’’ یا رسول اللہ، اس شخص کے ساتھ نرمی برتیے آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہم اس کے لیے تاج شاہی تیار کر رہے تھے ، اب یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے بادشاہی چھین لی ہے ‘‘ (ابن ہشام، ج2، ص 237۔ 238 )۔

جنگ بدر کے بعد جب یہود نبی قینقاع کی صریح بد عہدی اور بلا اشتعال سرکشی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر چڑھائی کی تو یہ شخص ان کی حمایت پر اٹھ کھڑا ہوا اور حضورؐ کی زرہ پکڑ کر کہنے لگا کہ ’’یہ سات سو مردان جنگی، جو ہر دشمن کے مقابلے میں میرا ساتھ دیتے رہے ہیں ، آج ایک دن میں آپ انہیں ختم کر ڈالنا چاہتے ہیں ؟ خدا کی قَسم، میں آپ کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ میرے ان حلیفوں کو معاف نہ کر دیں گے ‘‘ (ابن ہشام، ج 3، ص 51۔52)۔

جنگ احد کے موقع پر اس شخص نے صریح غداری کی اور عین وقت پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے الٹا واپس آ گیا۔ جس نازک گھڑی میں اس نے یہ حرکت کی تھی اس کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ تین ہزار کا لشکر لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے مقابلے میں صرف ایک ہزار آدمی ساتھ لے کر مدافعت کے لیے نکلے تھے۔ ان ایک ہزار میں سے بھی یہ منافق تین سو آدمی توڑ لایا اور حضورﷺ کو صرف سات سو کی جمعیت کے ساتھ تین ہزار دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔

اس واقعہ کے بعد مدینے کے عام مسلمانوں کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو گیا کہ یہ شخص قطعی منافق ہے ، اور اس کے وہ ساتھی بھی پہچان لیے گئے جو منافقت میں اس کے شریک کار تھے۔ اسی بنا پر جنگ احد کے بعد جب پہلا جمعہ آیا اور یہ شخص حضورؐ کے خطبہ سے پہلے حسب معمول تقریر کرنے کے لیے اٹھا تو لوگوں نے اس کا دامن کھینچ کر کہا ’’ بیٹھ جاؤ، تم یہ باتیں کرنے کے اہل نہیں ہو‘‘۔ مدینے میں یہ پہلا موقع تھا کہ علانیہ اس شخص کی تذلیل کی گئی۔ اس پر برہم ہو کر وہ لوگوں کی گردنوں پر سے کودتا پھاندتا مسجد سے نکل گیا۔ مسجد کے دروازے پر بعض انصاریوں نے اس سے کہا ’’ یہ کیا حرکت کر رہے ہو، واپس چلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے استغفار کی درخواست کرو‘‘۔ اس نے بگڑ کر جواب دیا ’’ میں ان سے کوئی استغفار نہیں کرانا چاہتا‘‘(ابن ہشام، ج 3، ص 111)۔

پھر 4 ہجری میں غزوہ بنی النضیر پیش آیا اور اس موقع پر اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اور بھی زیادہ کھل کر اسلام کے خلاف اعدائے اسلام کی حمایت کی۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ ان یہودی دشمنوں سے جنگ کی تیاری کر رہے تھے ، اور دوسری طرف یہ منافقین اندر ہی اندر یہودیوں کو پیغام بھیج رہے تھے کہ ڈٹے رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، تم سے جنگ کی جائے گی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور تم کو نکالا جائے گا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے۔ اس خفیہ ساز باز کا راز اللہ تعالیٰ نے خود کھول دیا، جیسا کہ سورہ حشر کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔

لیکن اس کی اور اس کے ساتھیوں کی اتنی پردہ دری ہو جانے کے باوجود جس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ساتھ در گزر کا معاملہ فرما رہے تھے وہ یہ تھی کہ منافقین کا ایک بڑا جتھا اس کے ساتھ تھا۔ اَوس اور خز رج دونوں قبیلوں کے بہت سے سردار اس کے حامی تھے۔ مدینے کی آبادی میں کم از کم ایک تہائی تعداد اس کے ساتھیوں کی موجود تھی، جیسا کہ غزوہ احد کے موقع پر ظاہر ہو چکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح مناسب نہ تھا کہ باہر کے دشمنوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ اندر کے ان دشمنوں سے بھی جنگ مول لے لی جاتی۔ اسی بنا پر ان کی منافقت کا حال جانتے ہوئے بھی حضورؐ ایک مدت تک ان کے ساتھ ان کے ظاہری دعوائے ایمان کے لحاظ سے معاملہ فرماتے رہے۔ دوسری طرف یہ لوگ بھی نہ اتنی طاقت رکھتے تھے ، نہ ہمت کہ علانیہ کافر بن کر اہل ایمان سے لڑ لیتے ، یا کسی حملہ آور دشمن کے ساتھ کھلم کھلا مل کر میدان میں آ جاتے۔ بظاہر وہ اپنا ایک مضبوط جتھا بنائے ہوئے تھے مگر ان کے اندر وہ کمزور یاں موجود تھیں جن کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورہ حشر کی آیات 12۔ 14 میں صاف صاف کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے وہ مسلمان بنے رہنے میں ہی اپنی خیر سمجھتے تھے۔ مسجدوں میں آتے تھے۔ نمازیں پڑھتے تھے۔ زکوٰۃ بھی دے ڈالتے تھے۔ زبان سے ایمان کے وہ لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے جن کے کرنے کی مخلص مسلمانوں کو کبھی ضرورت پیش نہ آ تی تھی۔ ان کے پاس اپنی ہر منافقانہ حرکت کے لیے ہزار جھوٹی توجہیں موجود تھیں جن سے وہ خاص طور پر اپنے ہم قبیلہ انصار کو یہ دھو کا دینے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے آپ کو ان نقصانات سے بھی بچا رہے تھے جو انصار کی برادری سے الگ ہو جانے کی صورت میں ان کو پہنچ سکتے تھے ، اور فتنہ پروازی کے ان مواقع سے بھی فائدہ اٹھا رہے تھے جو اس برادری میں شامل رہ کر انہیں مل سکتے تھے۔

یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے عبداللہ بنا ابی اور اس کے ساتھی منافقین کو غزوہ بنی المصْطَلِق کی مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا، اور انہوں نے بیک وقت دو ایسے عظیم فتنے اٹھا دیے جو مسلمانوں کی جمعیت کو بالکل پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ مگر قرآن پاک کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت سے اہل ایمان کو جو بہترین تربیت ملی تھی اس کی بدولت ان دونوں فتنوں کا بر وقت قلع قمع ہو گیا اور یہ منافقین الٹے خود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے ایک فتنہ وہ تھا جس کا ذکر سورہ نور میں گزر چکا ہے۔ اور دوسرا فتنہ یہ ہے  کہ جس کا اس سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

اس واقعہ کو بخاری، مسلم، احمد، نسائی، ترمذی، بیہقی، طبرانی، ابن مردویہ، عبدالرزاق، ابن جریر طبری، ابن سعد اور محمد بن اسحاق نے بکثرت سندوں سے نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں اس مہم کا نام نہیں لیا گیا ہے جس میں یہ پیش آیا تھا: اور بعض میں اسے غزوہ تبوک کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ مگر مغازی اور سیر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر پیش آیا تھا۔ صورت واقعہ تمام روایات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے : بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھیرا ہوا تھا جو مریسبع نامی کنویں پر آباد تھی کہ یکایک پانی پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے ایک کا نام جہجاہ بن مسعود غِفاری تھا جو حضرت عمرؓ کے ملازم تھے اور ان کا گھوڑا سنبھالنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اور دوسرے صاحب سنان بن وَبَرالجہنی ۱؎

تھے جن کا قبیلہ خز رج کے  ایک قبیلے کا حلیف تھا۔ زبانی ترش کلامی سے گزر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور جہجاہ نے سنان کے ایک لات رسید کر دی جسے اپنی قدیم یمنی روایات کی بنا پر انصار سخت توہین و تذلیل سمجھتے تھے۔ اس پر سنان نے انصار کو مدد کے لیے پکارا، اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی۔ ابن ابی نے اس جھگڑے  کی خبر سنتے ہیں اَوس اور خز رج کے لوگوں کو بھڑکانا اور چیخنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی اور اسی جگہ انصار و مہاجرین آپس میں لڑ پڑتے جہاں ابھی ابھی وہ مل کر ایک دشمن قبیلے سے لڑے تھے اور اسے شکست دے کر ابھی اسی کے علاقے میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ لیکن یہ شور سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکل آئے اور آپ نے فرمایا : ما بالُ دعوی الجاھلیۃ؟  مالکم ولدعوۃ الجاھلیۃ؟ دعوھا نانھا مُنْتِنَۃ‘‘۔ یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں ؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے ‘‘۔

۲؎

اس پر دونوں طرف کے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کا دیا اور سِنان نے جہجاہ کو معاف کر کے صلح کر لی۔ اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے دل میں نفاق تھا عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا اور ان لوگوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ ’’اب تک تو تم سے امیدیں وابستہ تھیں اور تم مدافعت کر رہے تھے ، مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلے میں ان کنگلوں

۳؎

کے مدد گار بن گئے ہو ‘‘۔ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا۔ ان باتوں سے وہ اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا ’’ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے ، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں (یا اصحاب محمدؐ ) کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرتا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم، مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا بنے وہ ذلیل کو نکال دے گا‘‘۔ مجلس میں اتفاق سے حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کی، اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے ، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضرت نے زید کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا۔

۴؎

حضورؐ نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے تم سے سننے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو۔ ممکن ہے تمہیں شبہ ہو گیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے۔ مگر زید نے عرض کیا نہیں حضور، خدا کی قسم میں نے اس کو یہ باتیں کہتے سنا ہے۔ اس پر حضورؐ نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ صاف مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہر گز نہیں کہیں۔ انصار کے لوگوں نے بھی کہا کہ حضورؐ، لڑکے کی بات ہے۔ شاید اسے وہم ہو گیا ہو۔ یہ ہمارا شیخ اور بزرگ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک لڑکے کی بات کا اعتبار نہ فرمایئے۔ قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے زید کو بھی ملامت کی اور وہ بیچارے رنجیدہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ رہے۔ مگر حضورؐ زید کو بھی جانتے تھے اور عبداللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آ کر عرض کیا ’’ مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یا اگر مجھے یہ جازت دینا مناسب خیال نہیں فرماتے تو خود انصار ہی میں سے معاذ بن جبل، یا عبّاد بن بشر، یا سعد بن معاذ، یا محمد بن مسلمہ کو حکم دیجیے

۵؎

۔ کہ وہ اسے قتل کر دیں ‘‘۔ مگر حضورؐ نے فرمایا، ’’ ایسا نہ کرو، لوگ کہیں گے کہ محمدؐ کے معمول کے لحاظ سے وہ کوچ کا وقت نہ تھا۔ مسلسل 30 گھنٹے چلتے رہے یہاں تک کہ لوگ تھک کر چور ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا اور تھکے ہوئے لوگ زمین پر کمر ٹکاتے ہی سو  گئے۔ یہ آپ نے اس لیے کیا کہ جو کچھ مُرَیْسیْع

کے کنوئیں پر پیش آیا تھا اس کے اثرات لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائیں۔ راستے میں انصار کے ایک سردار حضرت اُسید بن حضیر آپ سے ملے اور عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، آج آپ نے ایسے وقت کوچ کا حکم دیا جو سفر کے لیے موزوں نہ تھا اور آپ کبھی ایسے وقت میں سفر کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے ‘‘؟ حضورؐ  نے جواب دیا، ’’ تم نے سنا نہیں کہ تمہارے ان صاحب نے کیا گوہر افشانی کی ہے ؟’’ انہوں نے پوچھا کون صاحب؟ فرمایا عبداللہ بن ابی۔ انہوں نے پوچھا اس نے کیا کہا؟ فرمایا ’’ اس نے کہا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا، ’’ یا رسول اللہ، خدا کی قسم، عزت والے تو آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے ، آپ جب چاہیں اسے نکال سکتے ہیں ‘‘۔ رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں ابن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے ابن ابی سے کہا جا رک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے معافی مانگو۔مگر اس نے تڑخ کر جواب دیا ’’ تم نے کہا کہ ان پر ایمان لاؤ۔ میں ایمان لے آیا تم جے کہا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دو۔ میں نے زکوٰۃ بھی دے دی۔ اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ میں محمدؐ کو سجدہ کروں ‘‘۔ ان باتوں سے اس کے خلاف مومنین انصار کی ناراضی اور زیادہ بڑھ گئی اور ہر طرف سے اس پر پھٹکار پڑنے لگی۔ جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے ، بن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، تلوار سونت کر باپ کے آگے کھڑے ہو گئے اور بولے ،’’ آپ نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا ذیل کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ اور اس کے رسولؐ کی۔ خدا کی قسم، آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو اجازت نہ دیں ’’۔ اس پر ابن ابی چیخ اٹھا،’’ خز رج کے لوگو ! ذرا دیکھو، میرا بیٹا ہی مجھے مدینہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ‘‘۔ لوگوں نے یہ خبر حضورؐ تک پہنچائی  اور آپ نے فرمایا ’’ عبداللہ سے کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے ‘‘۔ عبد اللہؓ نے  کہا ’’ ان کا حکم ہے تو اب آپ داخل ہو سکتے ہیں ‘‘۔ اس وقت حضورؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا، ’’ کیوں عم، اب تمہارا کیا خیال ہے ؟ جس وقت تم نے کہا تھا کہ مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیجیے اس وقت اگر تم اسے قتل کر دیتے تو بہت سی ناکیں اس پر پھڑ کنے لگتیں۔ آج اگر میں اس کے قتل کا حکم دوں تو اسے قتل تک کیا جا سکتا ہے ‘‘۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا، ’’ خدا کی قسم اب مجھے معلوم ہو گیا کہ اللہ کے رسول کی بات میری بات سے زیادہ مبنی بر حکمت تھی‘‘۔

۶؎

یہ تھے وہ حالات جن میں یہ سورت، اغلب یہ ہے کہ حضورؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی۔

۱؎

دونوں اصحاب کے نام مختلف روایات میں مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ ہم نے یہ نام ابن ہشام کی روایت سے لیے ہیں واپس

۲؎

یہ ایک بڑی اہم بات ہے جو اس موقع پر حضورؐ نے ارشاد فرمائی۔ اسلام کی صحیح روح کو سمجھنے کے لیے اسے ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ضروری ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ دو آدمی اگر اپنے جھگڑے میں لوگوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں ، مسلمانو، آؤ اور ہماری مدد کرو، یا یہ کہ لوگو ہماری مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں ، مسلمانو، آؤ اور ہماری مدد کرو، یا یہ کہ لوگو ہماری مدد کے لیے آؤ۔ لیکن اگر ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے ، یا برادری، یا نسل و رنگ، یا علاقے کے نام پر لوگوں کو پکارتا ہے تو یہ جاہلیت کی پکار ہے ، اور اس پکار پر لبیک کہہ کر آنے والے اگر یہ نہیں دیکھتے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون، اور حق و انصاف کی بنا پر مظلوم کی حمایت کرنے کے بجائے اپنے اپنے گروہ کے آدمی کی حمایت میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جاتے ہیں تو یہ جاہلیت کا فعل ہے جس سے دنیا میں فساد برپا ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے گندی اور گھناؤنی چیز قرار دیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہارا اس جاہلیت کی پکار سے کیا واسطہ؟ تم اسلام کی بنیاد پر ایک ملت بنے تھے ، اب یہ انصار اور مہاجر کے نام پر تمہیں کیسے پکارا جا رہا ہے ، اور اس پکار پر تم کہاں دوڑے جا رہے ہو؟ علامہ سُہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ فقہائے اسلام نے کسی جھگڑے یا اختلاف میں جاہلیت کی پکار بلند کرنے کو ایک فوج داری جرم قرار دیا  ہے۔ ایک گروہ اس کی سزا پچاس ضرب تازیانہ قرار دیتا ہے۔ دوسرا گروہ دس ضرب تجویز کرتا ہے ، اور تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کی سزا حالات کی مناسبت سے دی جانی چاہیے۔ بعض حالات میں صرف زجر و توبیخ کافی ہے ، بعض دوسرے حالات میں ایسی پکار بلند کرنے والے کو قید کرنا چاہیے ، اور اگر یہ زیادہ شر انگیز ہو تو اس کے مرتکب کو سزائے تازیانہ دینی چاہیے۔ واپس

۳؎

مدینہ کے منافقین ان تمام لوگوں کو جز اسلام قبول کر کر کے مدینہ میں آ رہے تھے ، ’’جلابیب‘‘ کہا کرتے تھے۔ لغوی معنی تو اس لفظ کے گلیم پوش یا موٹے جھوٹے کپڑے پہننے والے کے ہیں ، مگر اصل مفہوم جس میں وہ لوگ غریب مہاجرین کی تذلیل کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے تھے ، کنگلے کے لفظ سے زیادہ صحیح طور پر ادا ہوتا ہے۔ واپس

۴؎

فقہاء نے اس سے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ ایک شخص کی بری بات دوسرے شخص تک پہنچانا اگر کسی دینی، اخلاقی یا ملی مصلحت کے لیے ہو تو یہ چغلی کی تعریف میں نہیں آتا۔ شریعت میں جس چغل خوری کو حرام کیا گیا ہے وہ فساد کی غرض سے اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لیے چغلی کھانا ہے۔ واپس

۵؎

مختلف روایات انصاری بزرگوں کے نام آئے ہیں جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے عرض کیا تھا کہ آپ ان میں سے کسی شخص سے یہ خدمت لے لیں اگر مجھ سے اس لیے یہ کام لینا مناسب خیال نہیں فرماتے کہ میں مہاجر ہوں ، میرے ہاتھوں اس کے مارے جانے سے فتنے بھڑک اٹھنے کا امکان ہے واپس

۶؎

اس سے دو اہم شرعی مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ جو طرز عمل ابن بی نے اختیار کیا تھا، اگر کوئی شخص مسلم ملت میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو وہ قتل کا مستحق ہے۔ دوسرے یہ کہ محض قانوناً کسی شخص کے مستحق قتل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے  کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم تر فتنے کا موجب تو نہ بن جائے گا۔ حالات سے آنکھیں بن کر  کے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اس مقصد کے خلاف بالکل اُلٹا نتیجہ پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابل لحاظ سیاسی طاقت موجود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔ یہی مصلحت تھے جس کی بنا پر حضورؐ نے عبداللہ بنا بی کو اس وقت بھی سزا نہ دی جب آپ اسے سزا دینے پر قادر تھے ، بلکہ اس کے ساتھ برابر نرمی کا سلوک کرتے رہے ، یہاں تک کہ دو تین سال کے اندر مدینہ میں منافقین کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ واپس


Surah An-Nur - نور
Ayah 1
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سُورَةٌ أَنزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
Ayah 2
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
Ayah 3
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر
الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
Ayah 4
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
Ayah 5
سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں) غفور و رحیم ہے
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
Ayah 6
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
Ayah 7
اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو
وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
Ayah 8
اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے
وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ
Ayah 9
اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو
وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ
Ayah 10
تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
Ayah 11
جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذاب عظیم ہے
إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ
Ayah 12
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟
لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
Ayah 13
وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں، اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں
لَّوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَـٰئِكَ عِندَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ
Ayah 14
اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
Ayah 15
(ذرا غور تو کرو، اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی
إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ
Ayah 16
کیوں نہ اُسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ "ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے"
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَانَكَ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
Ayah 17
اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو
يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
Ayah 18
اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے
وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
Ayah 19
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
Ayah 20
اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے (تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھا دیتی)
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
Ayah 21
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
Ayah 22
تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
Ayah 23
جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے
إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
Ayah 24
وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
Ayah 25
اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا
يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ
Ayah 26
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ان کا دامن پاک ہے اُن باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں، ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
Ayah 27
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
Ayah 28
پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
Ayah 29
البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے
لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ
Ayah 30
اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
Ayah 31
اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
Ayah 32
تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
Ayah 33
اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کر لو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے، اور ان کو اُس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو ا پنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں، اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جبر کے بعد اللہ اُن کے لیے غفور و رحیم ہے
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
Ayah 34
ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبر ت ناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں، اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ
Ayah 35
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں) اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
Ayah 36
(اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
Ayah 37
اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
Ayah 38
(اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے
لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
Ayah 39
(اس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
Ayah 40
یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نور نہیں
أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ
Ayah 41
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلا ئے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
Ayah 42
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
Ayah 43
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اُس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
Ayah 44
رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے اِس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے
يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
Ayah 45
اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے
وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
Ayah 46
ہم نے صاف صاف حقیقت بتانے والی آیات نازل کر دی ہیں، آگے صراط مستقیم کی طرف ہدایت اللہ ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے
لَّقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ ۚ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
Ayah 47
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولؐ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں
وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَـٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ
Ayah 48
جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے
وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ
Ayah 49
البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آ جاتے ہیں
وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
Ayah 50
کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں
أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
Ayah 51
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
Ayah 52
اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
Ayah 53
یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ "آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں" اِن سے کہو "قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے، تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے"
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
Ayah 54
کہو، "اللہ کے مطیع بنو اور رسولؐ کے تابع فرمان بن کر رہو لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسولؐ پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کا ذمہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اُس کے ذمہ دار تم ہو اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے ورنہ رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے"
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
Ayah 55
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
Ayah 56
نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
Ayah 57
جو لوگ کفر کر رہے ہیں ا ن کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین میں اللہ کو عاجز کر دیں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ
Ayah 58
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں: صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں اِن کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
Ayah 59
اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہے کہ اُسی طرح اجازت لیکر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں اِس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے
وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
Ayah 60
اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
Ayah 61
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے
لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
Ayah 62
مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسولؐ کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو، اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
Ayah 63
مسلمانو، اپنے درمیان رسولؐ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو اللہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سٹک جاتے ہیں رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے
لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
Ayah 64
خبردار رہو، آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے تم جس روش پر بھی ہو اللہ اُس کو جانتا ہے جس روز لوگ اُس کی طرف پلٹیں گے وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

Quran

is the holy scripture of Islam. Muslims believe that it is the literal word of Allah (سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى‎), revealed to the Prophet Muhammad (صلى الله عليه وسلم) over a period of 23 years. The Quran is composed of 114 Suras (chapters) and contains 6,236 Ayat (verses). Muslim beliefs and practices are based on the Quran and the Sunnah (the teachings and example of Muhammad (صلى الله عليه وسلم)).

Meccan Surahs

The Meccan Surahs are the earliest revelations that were sent down to the Prophet Muhammad (صلى الله عليه وسلم). They were revealed in Mecca, hence their name. These revelations form the foundation of the Islamic faith and contain guidance for Muslims on how to live their lives. The Meccan Surahs are also notable for their poetic beauty and lyrical prose.

Medinan Surahs

The Medinan Surahs of the noble Quran are the latest 24 Surahs that, according to Islamic tradition, were revealed at Medina after Prophet Muhammad's (صلى الله عليه وسلم) hijra from Mecca. These Surahs were revealed by Allah (سبحانه و تعالى) when the Muslim community was larger and more developed, as opposed to their minority position in Mecca.

Receive regular updates

* indicates required